کہیں سے ہندوستانی گانے کی آواز آرہی ہے۔ چائے کے ایک سٹال پر ویٹر ہاتھوں میں گرما گرم چائے کے کپ تھامے تیزی سے بھاگ دوڑ رہے ہیں۔ مکئی والا اپنے کاروبار میں مصروف ہے اور سڑک گاڑیوں اور انسانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ڈیفنس فیز5 توحید کمرشل کا یہ علاقہ ہر رات نہایت منافع بخش رہتا ہے۔ یہاں کا منظر ایک کسینو کی طرح دکھائی دیتا ہے جہاں ‘روولیٹ’ اور ‘بلیک جیک’ کے بجائے رئیل اسٹیٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور اس رئیل اسٹیٹ کا نام ‘بحریہ ٹاؤن کراچی’ ہے، جو سپر ہائی وے پر شہر سے دور تعمیر کیا جا رہا ہے۔
توحید کمرشل کی دو تین گلیوں میں موجود تقریباً ہر رئیل اسٹیٹ ایجنسی کے نام کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کی لوح نمایاں نظر آئے گی۔ ان میں سے کئی بحریہ ٹاؤن کے مستند ڈیلرز ہیں۔
ان میں سے بحریہ ٹاؤن کے ایک ایجنٹ کا کہنا ہے کہ ‘2 سال کی قلیل مدت میں بحریہ ٹاؤن کے مڈ وِے کمرشل میں 125 گز کے پلاٹ کی قیمت 90 لاکھ سے اوپر جاچکی ہے اور میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ 2 سالوں کے اندر اس کی قیمت 8 کروڑ سے زائد ہوجائے گی’.
ایک اور انتہائی مسرور ایجنٹ نے بتایا کہ، ‘حال ہی میں اسپورٹس سٹی (بحریہ ٹاؤن کے عقب میں واقع نئے منصوبے) کے سارے پلاٹ فروخت ہو چکے ہیں.’
اتفاق سے ان رئیل اسٹیسٹ ایجنسیوں میں سے ایک، جسے دو بھائی چلاتے ہیں، کچھ مخصوص خریداروں کے لیے بڑے پیمانے پر ‘حوالہ’ کی سہولت بھی دیتے ہیں۔
یہاں تک کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے رجسٹریشن فارم بھی ایک بہت بڑا کاروبار بن گئے ہیں۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ صرف فارم کی قیمت 1 لاکھ روپے سے زائد ہوتی ہے جس سے صرف فارم کی مد میں اربوں روپے حاصل ہو رہے ہیں۔”
بڑے پیمانے پر پھیلے اس بحریہ ٹاون کراچی کا دارومدار ڈھٹائی کے ساتھ قانون میں ہیرا پھیری پر منحصر ہے، جس میں سیاسی اشرافیہ اور زمینی عہدیداروں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ میں موجود بااثر شخصیات کے ساتھ مل کر زمین کے اصل مالکان کو ان کے حق سے محروم کردیا گیا۔
اور لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے، اس بے ایمانی کو ‘ترقیاتی کاموں’ کا نام دیا جا رہا ہے۔
بحریہ ٹاؤن اور لینڈ حکام نے ایک سازش کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے شہر میں زمینوں پر قبضوں کے لیے متعدد قوانین کی خلاف ورزی کی۔
19 مارچ کے دن، پولیس انسپکٹر خان نواز کی نگرانی میں کئی پولیس کی گاڑیاں ملیر کے ضلع میں موجود، سپر ہائی وے سے 13 کلومیٹر کی دوری پر جمعہ موریو گوٹھ نامی چھوٹے سے گاؤں پہنچیں۔ ان کے ساتھ بلڈوزر، وہیل لوڈرز اور ٹرک تھے جن کا مقصد وہاں موجود 250 گھروں اور جھونپڑیوں کو گرانا تھا۔
وہاں کے رہائشی امیر علی کے مطابق” یہ سارا کام بہت جلد کر لیا گیا اور بے یارو مددگار رہائشی گھبرانا شروع ہوگئے، انہیں معلوم تھا کہ ان کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے”۔
اس سے 2 روز قبل اس گوٹھ کے رہائشیوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے طاقت کے ذریعے ہٹا دیا جائے گا۔
ایک رہائشی کندا خان گبول کا کہنا تھا کہ ‘پولیس ہمارے لوگوں کو حراست میں لے رہی ہے اور دھمکیاں دے رہی ہے کہ وہ یہ ظاہر کرے گی کہ ہمیں وانا، مستونگ اور قالات کے علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے’.
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘پولیس نے مجھے کئی گھنٹوں تک زیرِ حراست رکھا اور مجھے اُس وقت چھوڑا گیا جب لوگ جمع ہونا شروع ہوئے، کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ ہائی وے بند نہ ہوجائے’.
گوٹھ کے ان رہائشیوں کی مشکلات کا آغاز 9 فروری کو اس وقت ہوا جب بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے حکام نے سڑک کے لیے جگہ خالی کروانے کی کوشش کی اور گاؤں کے رہائشیوں نے اس کی مزاحمت کی۔ جس کے جواب میں ایم ڈی اے کے حکام نے کندا خان گبول، امیر علی اور درجنوں دیہاتیوں کے خلاف فائرنگ کے الزام میں ایف آئی آر درج کروا دی۔
بھلے ہی چالان میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ زمین پر ایم ڈی اے کے مالکانہ حقوق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا، پھر بھی جسٹس شیر محمد کولاچی نے مجرمانہ غلطیوں سے بھرپور ایف آئی آر میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی شق 6 (2) ذیلی شق (M) (L) بھی شامل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
اس کی وجہ سے ایف آئی آر میں نامزد کئی افراد چھپے ہوئے ہیں، اور گاؤں کے رہائشیوں کے مطابق یہی وجہ تھی کہ وہ 19 مارچ کو گھروں کو توڑنے اس عمل کے خلاف مزاحمت نہیں کر پائے۔
جمعہ موریو کے لوگوں سے ابھی ان حربوں کے ذریعے خاندانی زمین کو چھینا گیا ہے، اس کے آس پاس کے دیہاتیوں کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے۔ زمینوں کے مالکانہ حقوق رکھنے کے باوجود لوگوں کو دھمکیوں کے ساتھ ساتھ زمین بیچنے کا کہا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو گرایا جا رہا ہے، قبرستان کا نشان تک مٹایا جا رہا ہے، پھلوں کے درختوں کو اکھاڑ دیا گیا ہے اور ٹیوب ویلوں کو توڑ دیا گیا ہے۔
گزشتہ برس نومبر کی ایک رات کثیر تعداد میں پولیس موبائلیں اور بکتر بند گاڑیوں نے علی محمد گبول گوٹھ کا رخ کیا۔ اہلکار مختلف گھروں میں داخل ہوئے اور 5 رہائشیوں دین محمد، عباس، اقبال، پنو اور داد اللہ کو اپنی گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے۔
وہاں کے رہائشی محمد موسیٰ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ پولیس والے صرف ان افراد کو نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی قیمتی اشیاء، پیسے، زیورات اور 3 بکریاں بھی ساتھ لے گئے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک قسم کی وارننگ ہے کہ اگلی بار یہ ہماری عورتوں کو بھی لے جائیں گے۔
پولیس اہلکار اس کام کے دوران رہائشیوں کے احتجاج سے بچننے کے لیے تعینات ہیں
یہ ریڈ بھی مختلف واقعات کا تسلسل تھی۔ اس چھاپے سے کچھ دن قبل انسپکٹر خان نواز ہی کی سربراہی میں پولیس اہلکاروں نے گوٹھ کا محاصرہ کرکے رہائشیوں کو سڑک کی تعمیر کے لیے زمین خالی کرنے کا کہا۔
مقامی افراد نے زمین خالی کرنے سے انکار کر دیا اور سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی۔
درخواست میں ایم ڈی اے، بحریہ ٹاؤن اور پولیس کو درخواست گزار کی زمین میں بے جا مداخلت، ہراساں اور بلیک میل کرنے اور زمین کی قانونی ملکیت رکھنے والوں کو بے دخل کرنے سے روکنے کا مقدمہ پیش کیا ہے۔
فیض محمد گبول (بائیں سے تیسرا) اپنے آباؤاجداد کی زمینوں پر کام ہوتے دیکھ رہا ہے
حراست میں لیے گئے مقامی افراد کے خاندان کا کہنا تھا کہ جب کہ صبح ملیر پولیس کے پاس گئے انہیں حراست میں لیے گئے افراد کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ جب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نمائندوں سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ان افراد کی رہائی کے لیے انہیں اپنی زمین کو چھوڑنا ہوگا۔ ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ اب ہمارے پاس ہارنے ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
مقامی تاریخ دان اور وقائع نگار گل حسن کلمتی نے غمگین لہجے میں کہا ’کس قانون کے مطابق غریبوں کے گھروں کو گرا کر امیر لوگوں کے لیے شاہانہ طرزِ رہائش بنائی جا رہی ہیں؟ کیا اس طرح پی پی پی اپنے وفادار ووٹرز کو نوازتی ہے۔‘
بحریہ ٹاؤن کراچی کے نیچے
جمعہ موریو اور علی محمد گبول ان 45 گاؤں میں شامل ہیں جو کہ سابقہ گڈاپ ٹاؤن کے 4 دیہات میں شامل تھے جو کہ اب ضلع ملیر کا حصہ ہیں۔
یہ تمام بستیاں ان لوگوں کا گھر ہے جو یہاں مشترکہ طور پر ایک صدی سے زائد عرصے سے رہائش پذیر ہیں، ان کے قبرستان اور مزارات ان کے آباء و اجداد کی رہائشیں اس کی گواہی دیتی ہیں۔
2،557 مربع کلومیٹر یا 631،848 ایکڑ رقبے پر محیط ضلع ملیر، کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا بڑا حصہ کھیتوں، نالوں، پہاڑوں اور جنگلی حیات کی پناہ گاہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کیرتھر نیشنل پارک کا بھی کچھ حصہ شامل ہے۔
یہاں کے رہائشی کھیتی باڑی، پولٹری فارمنگ اور مویشی پال کر گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی آواز کی امراء و اشرافیہ کے سامنے کوئی اہمیت نہیں، حکومت نے انہیں صرف چند ہی سہولیات فراہم کی ہیں۔
ان میں سے اکثر گوٹھوں کو ریگولرائز (باضابطہ) ابھی تک نہیں کیا گیا۔ اسی لیے یہ گوٹھ ‘آباد اسکیم’، جس سے انھیں ضلعی مفادات ملتے ہیں، کے تحت نہیں آتے ۔ اورنگی پائلٹ پرجیکٹ (او پی پی) کے ڈائریکٹرانور رشید کا کہنا ہے کہ ‘ریگولرائزیشن گوٹھ کے رہائشیوں کو زمین کی ملکیت دیتا ہے اور اس طریقے سے اُن سے زمین خالی نہیں کروائی جاسکتی’. ‘اگر ڈویلپرز سخت حربے استعمال کرتے ہیں تو ریگولرائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی قیمت دس گناہ یا بعض اوقات اسے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔’
2006ء سے لے کر 2013ء میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے قتل تک پراجیکٹ کی ٹیم نے کراچی میں متعدد گوٹھوں کی رجسٹریشن کا بیڑہ اٹھائے رکھا.
او پی پی کی ٹیم نے 1،131 گوٹھ کی دستاویزات مکمل کیں، جن میں سے 817 گوٹھ صرف گڈاپ میں موجود ہیں اور جہاں بحریہ ٹاؤن کی تعمیر ہو رہی ہے۔ گڈاپ کے ان گوٹھوں میں سے صرف 518 کی رجسٹریشن ہوئی، لیکن پروین رحمٰن صاحبہ کی موت کے بعد سے یہ کام ابھی تک رکا ہوا ہے۔
یہی چیز ڈویلپرز کے رواتی طریقہ کار کے لیے فائدہ مند ہے کہ جب کوئی ایسی گوٹھ ان کے راستے میں آتی ہے تو وہ حقیر وظیفہ دے کر لوگوں کو بے دخل کر دیتے ہیں۔
اس سے پہلے ملک ریاض کی کمپنی کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی جیسا بڑا رہائشی منصوبہ آج تک نہیں بنا۔ ڈان کے جغرافیائی سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی 93 مربع کلومیٹر یا 23،300 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہے.
کراچی کے شہر سے دور اس منصوبے میں رہائش کے علاوہ کمرشل بیلٹس، 36 ہولز گولف کورس اور دنیا کی ساتویں بڑی مسجد بنانے کا اعلان کیا گیا ہے-( بشکریہ ، ڈان رپورٹ)
Comments
Post a Comment